انجکشن سے روزہ ٹوٹنا، ایک تحقیقی فتویٰ / از مفتی عطاء اللہ عفی عنہ

سوال : 

انجکشن سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟ تفصیل کے ساتھ حکم شرعی سے آگاہ فرمادیں ، شکریہ 

الجواب حامداً و مصلیاً :
          انجکشن سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں ، اس کو جاننے سے پہلے چند  امور کا  بطور مقدمہ جاننا ضروری ہے :
(1)۔ انجکشن بدن میں کیسے مؤثر ہوتا ہے؟  (2) انجکشن کس غرض سے لگایا جارہا ہے ،بطور علاج و  دوا  یا بطور غذا ؟اور کیا غرض تبدیل ہونے سے حکم بدل جائے گا یا نہیں  !
        مندرجہ بالا مقدمات سمجھنے سے پہلے بنیادی بات یہ سمجھنی چاہیے کہ شریعت نے روزہ کے فساد کیلئے کیا اصول بتائی ہے اور اس کیلئے معیار کیا ہے، تو واضح ہو  کہ شریعت کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق روزہ تب ٹوٹتا ہے جب صورۃ ً یا معنی ً افطار پایا جائے ، صورۃ افطار یہ ہے کہ منہ سے کوئی چیز نگل کر جوف معدہ میں پہنچائی جائے اور معنی افطار یہ ہے کہ جوف ِ معدہ یا جوف دماغ تک کوئی ایسی چیز پہنچائی جائے جس میں بدن کیلئے فائدہ ہو ، خواہ وہ غذا ہو یا دوا ، اور اس کی شرط یہ ہے کہ جوف تک کسی چیز کا پہنچنا منافذ ِ اصلیہ (معتادہ) کے ذریعہ   ہو ،  چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے  فرما یا :  
والمفطرأنماھوالداخل من المنافذ،للا تفاق علی أن من اغتسل في ماء ، فوجد في باطنہ أنہ لا یفطر۔(رد المحتار ، ج2 ص 295)۔
        اور اس اصول کا ماخذ غالباً ایک حدیث ہے جس میں صحابی رسول نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرمی اور پیاس کی وجہ سے اپنے سر مبارک پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا ،  اس حدیث کو  امام ابوداؤد نے نقل فرمایا ہے :  
          قال ابوبکر : قال الذی حدثنی : لقد رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالعرج یصب علی رأسہ الماء وھو صائم، من العطش أومن الحر‘‘ (ابوداؤد ، کتاب الصوم ، باب الصائم یصب علیہ الماء من العطش ، حدیث نمبر : ۲۳۶5)۔
        اور غسل کے دوران یا  سر دھونے کے دوران مسامات کے ذریعہ جسم میں پانی پہنچنا ظاہر ہے ، معلوم ہوا کہ منافذ معتادہ کے علاوہ مسامات کے ذریعہ اگر کوئی  چیز (دوا وغیرہ) جسم میں پہنچائی جائے تو وہ افطار نہیں کہلائے گا اور مفسد ِ صوم نہ ہوگا۔اسی کو علامہ شامی رحمہ اللہ سرمہ لگانے کے مسئلے پر وجہ بیان کرتے ہوئے  بیان فرماتے ہیں:
قال في النھر : لأن الموجود في حلقہ أثر داخل من المسام الذي ھو خلل البدن ، والمفطر أنما ھو الداخل من المنافذ (رد المحتار ، ج2 ص 295)
اور اسی کو علامہ مرغینانی ؒ نے یوں بیان فرمایا :
ولو اکتحل لم یفطر  لانہ لیس بین العین و الدماغ منفذ و الدمع ترشح کالعرق و الداخل من المسام لاینافی ، کما لو اغتسل بالماء البارد۔( الھدایۃ  ، ص 120 ج 1)
        افطار کے شرعی مفہوم کو سمجھنے کے بعد واضح ہو کہ اطباء کے نزدیک  انجکشن کا اثر خواہ وہ رگ کا ہو یا گوشت کا  ، بدن کے مسامات کے واسطہ سے ہونا مسلم ہے ، لہذا انجکشن  لگانے میں افطار کامعنی نہ صورۃ ً پایا جاتا ہے اور نہ معنیً ، (اور حدیث شریف  " الفطر مما دخل الخ پر غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھال ، گوشت ، عروق  باطل ِ بدن نہیں بلکہ جسم کا خارجی اور بیرونی حصہ شمار ہوتا ہے ، ) اسلئے ہم بلا تردد کہہ سکتے ہیں کہ انجکشن لگانے  سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
        لیکن بعض دفعہ  انجکشن لگانے کا مقصد بدن میں غذا پہنچانا ہوتا ہے اور اس سے بدن کو ایسی ہی توانائی اور غذائیت ملتی ہے جیسے کھانے پینے سے ، تو کیا ایسا انجکشن مفطرِ صوم  ہوگا یا نہیں ؟
        یہ وہ مرحلہ ہے جس کے بارے میں مضمون کے ابتدا میں عرض کیاگیا کہ کیا  انجکشن کا غرض بدلنے سے حکم میں تبدیلی آئے گی یا نہیں ؟
        تو اس سلسلہ میں   اگرچہ بعض معاصر علماء جن میں کچھ عرب علماء بھی شامل ہیں ، نے ایسے انجکشن کو مفطر صوم قرار دیا ہے ؛ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سے بدن کو مطلوب غذا اور اس کے نتیجے میں توانائی ملتی ہے ، اور یہ روزہ کے منافی امر ہے۔
        گویا کہ ان حضرات نے غذائی انجکشن لینے کو معنیً افطار قرار دیا ہے ۔اور ماسبق میں گذر چکا کہ معنیً افطار بھی مفسد ِ صوم ہے۔
لیکن اس سلسلہ میں شریعت کے  اصول  و قواعد میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی احکام کا دارو مدار علتوں  پر ہوتا ہے ، حکمتوں اور اغراض پر نہیں ،  جیساکہ سفر میں قصر کے مسئلہ میں  فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ  اگر کوئی  کسی گناہ کی نیت سے سفر کرے اور وہ مسافت ِ شرعی بن رہی ہو تو اس کیلئے بھی قصر کرنے کا حکم ہے،(در مختار ، ج2 ص 124)  کیونکہ حکم ِ قصر کا مدار علت یعنی سفر پر ہے نہ کہ غرض پر ، کہ وہ شخص کس غرض سے سفرکررہا  ہے ۔
        بعینہ اسی طرح  یہاں بھی روزہ تب فاسد ہوگا جب  علتِ فساد  یعنی منافذ ِ معتبرہ کے ذریعہ  افطار (صورۃ یا معنی) پایا جائے ، اگر یہ علت نہیں پایا گیا تو روزہ فاسد نہ ہوگا، خواہ انجکشن لگانے سے غرض کوئی بھی ہو ، اور انجکشن کا افطار کی کسی صورت میں داخل نہ ہونا بیان ہوچکا،  البتہ اس صورت میں فوائد مقصودہ فوت ہونے کی وجہ سے  روزہ مکروہ ضرور ہوگا ، جس کا نتیجہ ثواب کے کم ہونے یا بالکل نہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے ۔
اس کی فقہی نظیر یہ ہے کہ : ’’ روزے کی حالت میں اطمینان حاصل کرنے کی غرض سے غسل کرنے ،بھیگے ہوئے کپڑے بدن یا سر پر لپیٹنے اورسر پر پانی ڈالنے کی  اگرچہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے اجازت دی ہے ؛مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے اور مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روزے میں اس طرح کرنا گویا بے چینی و پریشانی کا اظہار ہے اور یہ بات کراہت سے خالی نہیں‘‘۔
چنانچہ علامہ  شامی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :
’’ وإنما کرہ الإمام الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فیھا من إظھار الضجر في إقامۃ العبادۃ لا لأنہ مفطر‘‘۔(ج2 ص 295
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ایک تو یہ کہ روزے میں جسم پر یا سر پر پانی  ڈالنا ،غسل کرنا ،جسم پر کپڑا لپیٹنا؛ مفسد و مفطرِ صوم نہیں۔  دوسرے یہ کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ اس لیے کہا ہے کہ اس عمل سے عبادت سے بے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔
بعینہ اسی طرح جب کوئی بلا ضرورت ایسا انجکشن لیتا ہےجو غذا فراہم کرتا ہو، تو اس سے بھی گرچہ روزہ نہیں ٹوٹتا ؛لیکن روزہ  سے پریشانی وبے چینی کا مظاہرہ ہوتا ہے؛ اس لیےغذائی انجکشن لینا روزہ کے مقاصد اصلیہ کے منافی ہونے کی وجہ سے ممنوع ضرور ہے ، البتہ اگر کسی نے منع کے باوجود ایسا انجکشن لیا تو اس کا روزہ مکروہ تو ہوگا ، فاسد نہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ :
 (مفتی) عطاء اللہ انور (عفااللہ عنہ)
دار الافتاء جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی پاکستان
رابطہ:

Comments

Popular posts from this blog

احکام شب برات و روزه پانزده شعبان. (مفتی عطاءالله عفی عنه / افغانستان)

عدت چیست ؟ بعد از وفات شوھر زن باید چقدر زمان عدت بگیرد ؟ (مفتی عطاء اللہ عفااللہ عنہ)